تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ[55] فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ[56] وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ[57] ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ[58]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اورتجھے ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے تیری پیروی کی، قیامت کے دن تک ان لوگوں کے اوپر کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا، پھر میری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے تو میں تمھارے درمیان اس چیز کے بارے میں فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ [55] پھر جن لوگوں نے تو کفر کیا سو میں انھیں دنیا اور آخرت میں عذاب دوں گا، بہت سخت عذاب اور کوئی ان کی مدد کرنے والے نہیں۔ [56] اور رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو وہ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ [57] یہ ہے جسے ہم آیات اور پرحکمت نصیحت میں سے تجھ پر پڑھتے ہیں۔ [58]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے واﻻ ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے واﻻ ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے واﻻ ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے واﻻ ہوں قیامت کے دن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا [55] پھر کافروں کو تو میں دنیا اور آخرت میں سخت تر عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا [56] لیکن ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالیٰ ان کا ﺛواب پورا پورا دے گا اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں سے محبت نہیں کرتا [57] یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہیں [58]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اس وقت خدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کر دوں گا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (وغالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردوں گا [55] یعنی جو کافر ہوئے ان کو دنیا اور آخرت (دونوں) میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا [56] اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خدا پورا پورا صلہ دے گا اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا [57] (اے محمدﷺ) یہ ہم تم کو (خدا کی) آیتیں اور حکمت بھری نصیحتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں [58]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 55، 56، 57، 58،

اظہار خودمختاری ٭٭

قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ بعض مفسرین تو فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا پھر اس کے بعد تجھے فوت کروں گا، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی میں تجھے مارنے والا ہوں، وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اٹھاتے وقت دن کے شروع میں تین ساعت تک فوت کر دیا تھا، ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں نصاریٰ کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات ساعت تک فوت رکھا پھر زندہ کر دیا، وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں تین دن تک موت کے بعد پھر زندہ کر کے اٹھا لیا، مطر وراق رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی میں تجھے دنیا میں پورا پورا دینے والا ہوں یہاں وفات موت مراد نہیں، اسی طرح ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «تَوَّفّٰی» سے یہاں مراد ان کا رفع ہے

اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ وفات سے مراد یہاں نیند ہے، جیسے اور جگہ قرآن حکیم میں ہے «وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ» [6-الأنعام:60] ‏‏‏‏ وہ اللہ جو تمہیں رات کو فوت کر دیتا ہے یعنی سلا دیتا ہے اور جگہ ہے «اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا» [39-الزمر:42] ‏‏‏‏ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی موت کے وقت جانوں کو فوت کرتا ہے اور جو نہیں مرتیں انہیں ان کی نیند کے وقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے [ حدیث ] ‏‏‏‏ «الْحَمْدُ للهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا» یعنی اللہ عزوجل کا شکر ہے جس نے ہمیں مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دیا، [صحیح بخاری:6312] ‏‏‏‏

اور جگہ فرمان باری تعالٰی «وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَىٰ مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا» [4-النساء:159-156] ‏‏‏‏ تک پڑھو جہاں فرمایا گیا ہے ان کے کفر کی وجہ سے اور سیدہ مریم علیہ السلام پر بہتان عظیم باندھ لینے کی بنا پر اور اس باعث کہ وہ کہتے ہیں ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ علیہ السلام کو قتل کر دیا حالانکہ نہ قتل کیا ہے اور نہ صلیب دی لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا «مَوْتِه» کی ضمیر کا مرجع سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں یعنی تمام اہل کتاب عیسیٰ پر ایمان لائیں گے جبکہ وہ قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آ رہا ہے۔ ان شاء اللہ
1108

پس اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے کیونکہ نہ وہ جزیہ لیں گے نہ سوائے اسلام کے اور کوئی بات قبول کریں گے، ابن ابی حاتم میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے «إِنِّي مُتَوَفِّيكَ» کی تفسیر یہ مروی ہے کہ ان پر نیند ڈالی گئی اور نیند کی حالت میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا، [تفسیر ابن ابی حاتم:296/2] ‏‏‏‏

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:7129:مرسل ضعیف] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے میں تجھے اپنی طرف اٹھا کر کافروں کی گرفت سے آزاد کرنے والا ہوں، اور تیرے تابعداروں کو کافروں پر غالب رکھنے والا ہوں قیامت تک، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا لیا تو ان کے بعد ان کے ساتھیوں کے کئی فریق ہو گئے ایک فرقہ تو آپ کی بعثت پر ایمان رکھنے والا تھا کہ آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی ایک بندی کے لڑکے ہیں بعض وہ تھے جنہوں نے غلو سے کام لیا اور بڑھ گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے، اوروں نے آپ کو اللہ کہا، دوسروں نے تین میں کا ایک آپ کو بتایا، اللہ تعالیٰ ان کے ان عقائد کا ذکر قرآن مجید میں فرماتا ہے پھر ان کی تردید بھی کر دی ہے تین سو سال تک تو یہ اسی طرح رہے۔
1109

پھر یونان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بڑا فلیسوف تھا جس کا نام قسطنطین تھا کہا جاتا ہے کہ صرف اس دین کو بگڑانے کے لیے منافقانہ انداز سے اس دین میں داخل ہوا یا جہالت سے داخل ہوا ہو، بہر صورت اس نے دین مسیح کو بالکل بدل ڈالا اور بڑی تحریف اور تفسیر کی اس دین میں اور کمی زیادہ بھی کر ڈالی، بہت سے قانون ایجاد کئے اور امانت کبریٰ بھی اسی کی ایجاد ہے جو دراصل کمینہ پن کی خیانت ہے، اسی نے اپنے زمانہ میں سود کو حلال کیا اسی کے حکم سے عیسائی مشرق کی طرف نمازیں پڑھنے لگے اسی نے گرجاؤں اور کلیساؤں میں عبادت خانوں اور خانقاہوں میں تصویریں بنوائیں٠ اور اپنے ایک گناہ کے باعث دس روزے روزوں میں بڑھوا دئیے،

غرض اس کے زمانہ سے دین مسیح مسیحی دین نہ رہا بلکہ دین قسطنطین ہو گیا، اس نے ظاہری رونق تو خوب دی بارہ ہزار سے زائد تو عبادت گاہیں بنوا دیں اور ایک شہر اپنے نام سے بسایا، ملکیہ گروہ نے اس کی تمام باتیں مان لیں لیکن باوجود ان سب سیاہ کاریوں کے یہودی اس بات پر تلے رہے اور دراصل نسبتاً حق سے زیادہ قریب یہی تھے گو فی الواقع سارے کے سارے کفار تھے اللہ خالق کل کی ان پر پھٹکار ہو،

اب جبکہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا برگزیدہ بنا کر دنیا میں بھیجا تو آپ پر جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی تھا اس کے فرشتوں پر بھی تھا اس کی کتابوں پر بھی تھا اور اس کے تمام رسولوں پر بھی تھا پس حقیقت میں نبیوں کے سچے تابع فرمان یہی لوگ تھے یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اس لیے کہ یہ نبی امی عربی خاتم الرسول سید اولاد آدم کے ماننے والے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم برحق تعلیم کو سچا ماننے والے تھے، لہٰذا دراصل ہر نبی کے سچے تابعدار اور صحیح معنی میں امتی کہلانے کے مستحق یہی لوگ تھے کیونکہ ان لوگوں نے جو اپنے تئیں عیسیٰ کی امت کہتے تھے تو دین عیسوی کو بالکل مسخ اور فسخ کر دیا تھا
1110

علاوہ ازیں پیغمبر آخرالزمان کا دین بھی اور تمام اگلی شریعتوں کا ناسخ تھا پھر محفوظ رہنے والا تھا جس کا ایک شوشہ بھی قیامت تک بدلنے والا نہیں اس لیے اس آیت «وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا» [24-النور:55] ‏‏‏‏ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے کافروں پر اس امت کو غالب کر دیا اور یہ مشرق سے لے کر مغرب تک چھا گئے ملکوں کو اپنے پاؤں تلے روند دیا اور بڑے بڑے جابر اور کٹر کافروں کی گردنیں مروڑ دیں دولتیں ان کے پیروں میں آ گئیں فتح و غنیمت ان کی رکابیں٠ چومنے لگی مدتوں کی پرانی سلطنتوں کے تخت انہوں نے الٹ دئیے،

کسریٰ کی عظیم الشان پر شان سلطنت اور ان کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے ان کے ہاتھوں ویران اور سرد ہو گئے، قیصر کا تاج و تخت ان اللہ والوں نے تاخت و تاراج کیا اور انہیں مسیح پرستی کا خوب مزا چکھایا اور ان کے خزانوں کو اللہ واحد کی رضا مندی میں اور اس کے سچے نبی کے دین کی اشاعت میں دل کھول کر خرچ کئے اور اللہ کے لکھے اور نبی کے وعدے چڑھے ہوئے سورج اور چودھویں کے روشن چاند کی طرح سچے ہوئے لوگوں نے دیکھ لیے، مسیح علیہ السلام کے نام کو بدنام کرنے والے مسیح کے نام شیطانوں کو پوجنے والے ان پاکباز اللہ پرستوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کے لہلہاتے ہوئے باغات اور آباد شہروں کو ان کے حوالے کر کے بدحواس بھاگتے ہوئے روم میں جا بسے پھر وہاں سے بھی یہ بےعزت کر کے نکالے گئے اور اپنے بادشاہ کے خاص شہر قسطنطنیہ میں پہنچے لیکن پھر وہاں سے بھی ذلیل خوار کر کے نکال دئیے گئے اور ان شاءاللہ العزیز اسلام اور اہل اسلام قیامت تک ان پر غالب ہی رہیں گے۔

سب سچوں کے سردار جن کی سچائی پر مہر الٰہی لگ چکی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے چکے ہیں جو اٹل ہے نہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے، نہ ٹالے ٹلے، فرماتے ہیں کہ آپ کی امت کا آخری گروہ قسطنطنیہ کو فتح کرے گا اور وہاں کے تمام خزانے اپنے قبضے میں لے گا اور رومیوں سے ان کی گھمسان کی لڑائی ہو گی کہ اس کی نظیر سے دنیا خالی ہو۔
1111

(‏‏‏‏ہماری دعا ہے کہ ہر زمانے میں اللہ قادر کل اس امت کا حامی و ناصر رہے اور روئے زمین کے کفار پر انہیں غالب رکھے اور انہیں سمجھ دے تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی اطاعت کریں، یہی اسلام کی اصل ہے اور یہی عروج دینوی کا گر ہے) میں نے سب کو علیحدہ کتاب میں جمع کر دیا ہے، آگے اللہ تعالیٰ کے قول پر نظر ڈالیے کہ «وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن وَاقٍ» [13-الرعد:34] ‏‏‏‏ مسیح علیہ السلام کے ساتھ کفر کرنے والے یہود اور آپ کی شان میں بڑھ چڑھ کر باتیں بنا کر بہکنے والے نصرانیوں کو قتل و قید کی مار اور سلطنت کے تباہ ہو جانے کی یہاں بھی سزا دی اور آخرت کا عذاب وہاں دیکھ لیں گے جہاں نہ کوئی بچا سکے نہ مدد کر سکے گا لیکن برخلاف ان کے ایمانداروں کو پورا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا دنیا میں بھی فتح اور نصرت عزت و حرمت عطا ہو گی اور آخرت میں بھی خاص رحمتیں اور نعمتیں ملیں گی، اللہ تعالیٰ ظالموں کو ناپسند رکھتا ہے۔

پھر فرمایا اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ تھی حقیقت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ابتداء پیدائش کی اور ان کے امر کی جو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آپ کی طرف بذریعہ اپنی خاص وحی کے اتار دی جس میں کوئی شک و شبہ نہیں جیسے سورۃ مریم میں فرمایا «ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ» ‏‏‏‏ [19-مريم:34] ‏‏‏‏ «‏‏‏‏مَا كَانَ لِلَّـهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ» [19-مريم:35] ‏‏‏‏، عیسیٰ بن مریم یہی ہیں یہی سچی حقیقت ہے جس میں تم شک و شبہ میں پڑے ہو، اللہ تعالیٰ کو تو لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اس سے بالکل پاک ہے وہ جو کرنا چاہے کہ دیتا ہے ہو جا، بس وہ ہو جاتا ہے، اب یہاں بھی اس کے بعد بیان ہو رہا ہے۔
1112



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.